اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ پاکستان کے تعاون سے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں چھ ستمبر سے جاری دس روزہ فیلوشپ منعقد کی گئی۔ فیلوشپ کا موضوع کم عمری کی شادی اور تشدد پر مبنی ہے۔ پورے ملک سے خواجہ سراء سمیت چالیس صحافیوں نے اس فیلوشپ میں حصہ لیا۔
اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ پاکستان کی پچھلے سال کی رپورٹ کے مطابق ستر فیصد خواتین کو اپنے خاوند سے تشدد کا سامنا ہے۔ پاکستان کو دیگر علاقائی ملکوں کے مقابلے میں آج بھی تشدد اور آبادی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ تشدد صرف خواتین کا معاملہ نہی بلکہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔ تشدد کی روک تھام اور کنٹرول کیلئے یہ بین الاقوامی ادارہ اس فیلوشپ کے ساتھ منسلک ہوا ہے، ڈاکٹر لوئے شبانہ (نمائندہ اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ پاکستان)
چیئرپرسن قومی کمیشن برائے خواتین نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ میڈیا کو تشدد جیسے موضوع سے بآور کرایا گیا ہے۔ بس بہت ہوچکا! میڈیا معاشرے میں ایک نگران (واچ ڈاگ) کے طور پر کام کرتا ہے لہذا خواتین پر تشدد کے خلاف یہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
سندھ کمیشن برائے خواتین نزہت شیریں نے گھریلو تشدد جیسے مسئلے پر میڈیا کی خدمات کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا قطعا درست نہی ہے کہ میڈیا اس بارے میں حساس نہی ہے۔ اس کے برعکس تشدد کے جتنے بھی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں وہ سب میڈیا کے ذریعے ہی ہم تک پہنچتے ہیں۔ ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا پر خواتین کے حقوق اور ان کے متعلق پالیسیوں اور قوانین کے نفاذ کو مزید کوریج دی جائے۔
سینئر صحافی و ڈائریکٹر سی ای جے آئی بی اے عنمبر رحیم شمسی نے کہا کہ ہمیں نور مقدم، فاطمہ، رضوانہ یا زینب جیسے واقعات پر ہیش ٹیگز سے آگے بڑھ کرمزید سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی بہت سی ان کہی کہانیاں ہیں جن تک میڈیا کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ صحافیوں کو آگے بڑھنا چایئے اور ان کی بھی آواز بننا چاہئے۔
اس میڈیا فیلوشپ میں کل ایک سو پانچ امیدواروں نے حصہ لیا جس میں سے بیس مرد، انیس خواتین جبکہ ایک خواجہ سراء آرزو خان سمیت کل چالیس صحافیوں کا انتخاب کیا گیا۔ پہلی بار قومی سطح پر ہونے والی فیلوشپ میں کسی خواجہ سراء کومنتخب کیا گیا ہے۔
آرزو پشاور کے علاقے سے تعلق رکھتی ہیں انہوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ پختونخواہ میں بڑی بے دردی سے خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا۔ پولیس کی جانب سے ہمیں قتل یا تشدد کا مقدمہ درج کروانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے لئے کوئی آواز نہی اٹھاتا ہے۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ صوبائی سطح پر تو نہیں ہاں یونین کونسل کی سطح پر ہماری سیاسی نمائندگی ہونی چاہیئے تاکہ ہم خواجہ سراؤں کے حقوق اور ان کی زندگیوں کے تحفظ پر بات کرسکیں۔