تحریر : قرسم فاطمہ
ترکی اور یورپ کے مابین 24 جولائی 1923 کو کئے گئے ظالمانہ معاہدہ کو گزرے صدی گزر چکی ہے۔ جی ہاں ترکی جس کا حال ہی میں نام ترکیہ رکھا گیا ہے، دوبارہ سے اپنا وہ مقام حاصل کرنے جارہا ہے جو کہ معاہدہ لوازن کے ذریعے کھوچکا ہے۔
ترکیہ کے ساتھ ماضی میں کئے گئے معاہدہ لوازن، جس کا ظاہری مقصد تو امن تھا لیکن حقیقت میں یہ کہنا بے جا نا ہوگا کہ یہ نا صرف ترکیہ کو توڑنے کی سازش تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ترکیہ کو معاشی و اقتصادی طور پر تباہ و برباد کرنے کا مکمل پلان تھا۔ اس معاہدے کے تحت ترکیہ پر ہر قسم کی جنگی اور دفاعی پابندیاں بھی لگا دی گئی جس سے یہ صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ امن نہیں بلکہ انگریزوں اور یہودیوں کی ترک مسلمانوں کے خلاف اایک مشترکہ گھناؤنی سازش تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو منتشر کرکے کمزور کرنا تھا۔
معاہدہ لوازن کا خاتمہ
معاہدہ لوازن ایک سو سال کے طویل عرصہ میں ختم ہونا تھا اور اس دوران ترکیہ پر ہر قسم کی پابندیاں لگا دی گئیں۔ مسلمان ہمیشہ کی طرح انگریزوں کے کھلاڑی بنتے ہوئے امن کا خواب آنکھوں میں سجائے معاہدہ کربیٹھے مگر حقیقت میں اس کے برعکس امن کے خواب کا کافی استحصال کیا گیا۔ اب یہ نا تو اپنے ہی ملک سے تیل نکال سکتا تھا اور نا ہی کان کنی کرسکتا تھا۔ آخر کار 2023 میں یہ معاہدہ ختم ہوگیا اور ترکیہ پر سے تمام پابندیاں ہٹا دی گئیں۔
ترکیہ میں ہونے والے عام انتخابات
حال ہی میں 2023 میں ہونے والے عام انتخابات میں عوام نے تیسری مرتبہ طیب اردگان کو کثرت سے صدر منتخب کرلیا۔ اگرچہ اسی سال ترکیہ میں آنےوالے تباہ کن زلزلے سے قوم کے حوصلے ٹوٹ چکے تھے۔ لاکھوں مکانات اور عمارتیں تباہ ہوئیں۔ کئی شہر تباہ ہوگئے۔ لاکھوں لوگ جانی اور مالی طور پر متاثر ہوئے مگر ان سب کے باوجود عوام نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ متفقہ طور پر حق آزادی رائے کا استعمال کرتے ہوئے ایک قوم بن کر اپنا فیصلہ سنایا اور کثرت سے تیسری مرتبہ طیب اردگان کو صدر منتخب کرلیا۔
طیب اردگان نے اپنے پہلے 10 سالہ دور حکومت میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور یہ کسی بھی ملک سے چھپا نا تھا۔ اگرچہ ان کے پہلے دس سالہ حکومت میں معاہدہ لوازن کی وجہ سے متعدد پابندیاں تھیں لیکن صدر نے اپنی قوم کے حوصلے پست نہیں ہونے دئے اور ایک مقصد کے تحت اپنی قوم کو متحد کئے رکھا۔ آخر کار اب جب یہ معاہدہ اپنے اختتام کو پہنچا تو صدر اردگان نے ایسے اقدامات کئے جس سے پوری دنیا کے اسلام دشمن عناصر پر واضح ہوگیا کہ ترکیہ متحد ہے۔ غلامی ہرگز قبول نہیں ہے۔ صدر اردگان نے ترکیہ کی بحالی کیلئے اور کھوئے وائے وقار کو پھر سے حاصل کرنے کیلئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں اور پوری دنیا کو واضح کردی ہے کہ ترکیہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ ترکیہ ایک آزاد ملک ہے اور کسی کے سامنے نہیں جھکے گا۔
مزید پڑھئے : فلسطین پر ہونے والے حملوں پر صدر اردگان کا اسرائیل کے خلاف سخت بیان
موقع کی مناسبت سے جہاں ترکیہ اپنی سلطنت کی بحالی و خوشحالی کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں وہیں ترک اداکار بھی اس میدان میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ معاشی خوشحالی اور ترقی کے ساتھ ساتھ ترک عناصر پوری دنیا کو ایک پرچم تلے جمع کرنے میں بھی آگے آگے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی مختلف سیریز کا انعقاد کیا گیا تاکہ پوری دنیا کے مسلمان اپنے مقصد کو پہچان سکیں اور صحیح معنوں میں اسلام کی تبلیغ اور تعلیمات پر عمل پیرا ہوسکیں۔ ان میں ارتغرل غازی، الپ ارسلان اور کورلس عثمان سر فہرست ٹھرے۔ عثمان غازی اور سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی تاریخی سیریز کا اختتام ہوا جس میں باقاعدہ طور پر اس سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دوران دشمنان اسلام کی چالوں اور مکاریوں کا بھی خوب بتایاگیا مگرکیا حق کے سامنے بھی کبھی باطل ٹھرا ہے؟
سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی اس ڈرامے میں تاریخی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے سلطنت کی بنیاد رکھنے تک کا مکمل پس منظر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ترکیہ کی طرف سے پوری دنیا کو ایک پیغام کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔ یہ پیغام پوری دنیا کیلئے ایک علامت ہے کہ ترک اب پھر سے آزاد ہونے جارہا ہے اور سلطنت عثمانیہ کی بحالی کا سفر بھی شروع ہو چکا پے۔ ترکی کی طرف سے کئے گئے اقدامات بہت سے نئے سوالوں کو جنم دے رہے ہیں کہ آیا سلطنت عثمانیہ پھر سے قائم ہونے جارہی ہے ؟ اگرچہ یہ سچ ہے تو مسلم ممالک ترکیہ جیسے ملک کے ساتھ شامل ہونے سے بلکل بھی انکار نہیں کریں گے۔ معاہدہ لوازن، ترک الیکشن اورترک ڈراموں میں پیش کردہ حقائق سے یہ بات پانی کی طرح صاف اور واضح ہے کہ عثمانی سلطنت بحال ہونے جارہی ہے۔ اس صدی کو عثمانی سلطنت کی صدی کیا جائے تو اس میں کچھ بھی غلط نا ہوگا۔
اگر تمام مسلم ممالک متحد ہوجائیں تو یقینا پوری دنیا میں اسلامی انقلاب بھرپا ہوجائے گا لیکن دوسری طرف یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تمام ملک جو کہ ترکیہ کی حدود میں تھے وہ سب اب آزاد ہوچکے ہیں اور یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ وہ ممالک ترکیہ کے ساتھ شامل ہونے سے انکار بھی کرسکتے ہیں۔ یہ سب ایک طرف !!! لیکن یہ کہنا بے جا نا ہوگا کہ ترکیہ ایک بڑی معاشی قوت بن کر ابھرنے والا ہے اور پوری دنیا میں اس کی اجارہ داری قائم ہونے جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ اب ترکیہ کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔