ابراہیم حیدری ٹاؤن ساحل سمندر کے ساتھ ایک ایسی بستی ہے جس میں پنجابی، سندھی ، بلوچی ، کشمیری اور سرائیکی آباد ہیں۔ ان لوگوں میں اکثریت کا تعلق ماہی گیری شعبہ سے منسلک ہے جس سے یہ لوگ سارا سال گزر بسر کرتے ہیں۔ یہاں پر مختلف علاقوں سے ماہی گیر اپنے شکار کیلئے آتے ہیں۔ اس علاقہ کہ خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں ہر رنگ ہر نسل کے مچھیرے ملیں گے اور یہ ماہی گیری ہے جس نے ان کو آپس میں جوڑے رکھا ہے۔ مزید یہ کہ یہ علاقہ ساحل سمندر کی ایسی جگہ واقع ہے جہاں سے چند ہی میلوں کے بعد نا ختم ہونے والا مینگرووز جنگلات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
مینگرووز کے جنگلات انسانی اور آبی حیات کے تحفظ کا ذریعہ ہیں۔ یہ جنگلات قدرتی آفات جیسے سمندری طوفان وغیرہ کی شدت کو روکنے اور کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آبی حیات کی افزائش کا بھی ذریعہ ہیں جس سے مچھیروں کا روزگار منسلک ہے۔
پاکستان فشر فوک فورم 1998 میں سول سوسائٹی کے طور پر قائم ہوا جوکہ پاکستان میں ماہی گیروں اور کسانوں کے سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کو آگے بڑھانے کیلئے کام کر رہی ہے۔ ابراہیم حیدری ٹاؤن میں یہ سوسائٹی ماہی گیروں کے مسائل کے ساتھ ساتھ ٹیرس ڈیس ہومز (جرمن) کے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد آنے والی نسل کو سماجی و معاشی طور پر خوشحال کرنا ہے۔ مقدس طاہر جو کہ اس فورم کی سوشل میڈیا ٹیم کی کوآرڈینیٹر ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ فورم نا صرف ان مچھیرا یونینز کی آواز بنتا ہے بلکہ مچھیروں کے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحت کے فروغ کیلئے بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
ہر سال 27 ستمبر کو عالمی سطح پر سیاحت کا دن منایا جاتا ہے۔ فشر فوک فورم پاکستان کیجانب سے 27 ستمبر کو سمندر کے گہرے پانیوں کی سیر اور مینگرووز سفاری کو قریب سے جاننے کے لئے ایک سفر کا اہتممام کیا گیا جس میں شعبہ صحافت سے منسلک لوگوں کے ساتھ ساتھ مختلف تعلیمی اداروں سے طلباء شریک ہوئے۔
محمد رفیق (جو کہ خود بھی ایک ماہی گیر کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان فشر فوک فورم پر سوشل میڈیا کو آرڈینیٹر کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔) کا کہنا ہے کہ سمندر میں بہت سی کشتیاں ہیں اور ہر ایک کشتی پر مختلف رنگوں کے رمٹو (جھنڈے) نصب کئے گئے ہیں جو کہ ان کشتیوں کی شناخت سمجھے جاتے ہیں۔ دوران سفر ٹورسٹ ٹیم نے کسی بھی طرح کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے لائف جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں۔ محمد رفیق کا کہنا ہے کہ جیکٹس کے بغیر گہرے سمندر میں جانا ممکن نہی ہے کیونکہ جیکٹس کے بغیر کوسٹ گارڈ کشتی کو گہرے سمندر میں اترنے کی اجازت نہیں دے گا۔ پھر یہ کہ ماہی گیر پورا سال مچھلیاں پکڑتے ہیں مگر جون اور جولائی میں یہ کاروبار بند ہوجاتا ہے۔ وجہ معلوم کرنے پر بتایا کہ جون اور جولائی میں سمندر کی لہریں اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ اس پر کشتی کا چلنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ ان مہینوں میں ساری کشتیاں ساحل کے ساتھ کھڑی دور سے ہی اپنے شکار کو دیکھتی رہتی ہیں۔
پاکستان میں سیاحت کو پروموٹ کرنے، خاص طور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لحاظ سے یہ سفر بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔ اس دوران سمندر کے گہرے پانیوں کی سیر کے ساتھ ساتھ مینگرووز سے گھرے کھڈی کریک نامی جزیرہ کی سیر کا بھی موقع ملا۔ مینگرووز سے چھپے اس جزیرے تک جانے کیلئے براستہ سمندر تقریبا 2 سے ڈھائی گھنٹے ایک بڑی کشتی کے ذریعے مسافت طے کرنا پڑی۔ اس کھڈی نامی جزیرے میں زیادہ تر جیلی فش کا کاروبار ہوتا ہے۔ محمد زیرک جو کہ رفیق اور مقدس کے ہمراہ سوشل میڈیا دیکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جیلی فش کا رجحان زیادہ تر دسمبر اور جنوری کے موسم میں ہوتا ہے لہذا ابھی یہاں کی فیکٹری بند پڑی ہے۔ جب جیلی فش کا سیزن شروع ہوتا ہے تو اس جزیرے پر بہت زیادہ رش دیکھنے کو ملتا ہے۔
عباس علی ایک پینتیس سالہ مچھیرا ہے (جو اس سفر میں کشتی کا ڈرائیور بھی تھا) اس نے بتایا کہ اس کھڈی جزیرے پر ماہی گیروں کے چند گھر بھی موجود ہیں جہاں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ رہتے ہیں۔ گھر کا راشن اور دیگر ضروری اشیاء وہ ہر مہینے ایک ساتھ شہر جاکر لے آتے ہیں۔ صحت کے مسائل کے متعلق رہنمائی کیلئے ماہی گیروں کو کشتی پر سفر کرکے شہر جانا پڑتا ہے جوکہ ان کیلئے مشکلات کا باعث ہے۔
اس سفر کے دوران سب سے دلچسپ بات یہ جاننے کو ملی کہ سمندر میں بھی پانی کم ہوسکتا ہے۔ مگر کیسے؟
کھڈی جزیرے پر تقریبا 1 گھنٹہ قیام ہوا اور اس دوران مینگرووز کو قریب سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ آبی حیات کے متعلق جاننے کا موقع ملا۔ کشتی اس جزیرے کے کنارے سے ساتھ کھڑی تھی مگر جب واپسی کا رخ کیا تو کشتی کا لیول بہت نیچے جا چکا تھا کیونکہ اس حصے میں سمندر کا پانی اتنا کم ہوچکا تھا کہ کشتی کا وہاں سے نکلنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ کسی نے کہا کہ دعا کریں کہ سمندر میں پانی آجائے! کسی نے کہا کہ بالٹی لے جاؤ اور پانی لے آؤ۔ ماہی گیروں نے کشتی نکالنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نا ہوسکے۔
پانی کا انتظار کرتے کرتے بہت سے مضحکہ خیز جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ان جملوں کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ سمندر میں لہریں ہوتی ہیں جو پانی لاتی ہیں۔ قدرتی طور پر یہ لہریں کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔ جس سے سمندر میں پانی کی سطح بھی کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ اس دوران دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا گیا جو کہ بغیر پانی کے وہیں ہضم ہوگیا۔ پانی کے انتظار میں کشتی کے اندر ہنسی مزاح بھی چلتا رہا اور کشتی کو اس جگہ سے نکالنے کیلئے خوب محنت بھی ہوتی رہی۔ پانی تو نا آیا مگر ماہی گیروں کی محنت رنگ لے آئی اور کشتی نے آہستہ آہستہ حرکت کرنا شروع کی۔ جوں جوں آگے بڑھے پانی مزید کم ہوتا ہی دکھائی دیا۔ سیانے ٹھیک کہتے ہیں کہ خدا کبھی بھی آپ کی محنت کو رائیگاں نہی کرتا۔
آہستہ آہستہ مینگرووز کا سلسلہ ختم ہونے لگا اور کشتی واپس پانی میں اترنے لگی۔ شام ہونے کو آئی تھی۔ واپسی سفر کے دوران سمندر میں پانی کا لیول بہت اونچا دکھائی دیا۔ اس دوران سمندر میں کافی تعداد میں کشتیاں بھی دکھائی دیں۔ زیادہ تر کشتیاں مچھیروں کی تھیں مگر ان میں سے چند ایک سیرو سیاحت اور تفریح کیلئے سمندر کی لہروں کو چیڑتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھیں۔ کچھ گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے بعد بلآخر کشتی واپسی حیدری ٹاؤن ساحل پر آ کر رکی۔
ابراہیم حیدری کے ایک طرف جہاں انتہائی خوبصورت سمندر کا نظارہ ہے تو وہیں دوسری طرف آگ برساتی فیکٹریوں کا دھواں بھی دکھائی دے رہا تھا۔ فیکٹیوں سے نکلتا یہ دھواں اور زہریلی گیسیں نا صرف ہوا میں شامل ہوکر انسانوں کیلئے سانس اور جلد کی بیماریاں پھیلا رہا ہے بلکہ ساحل کے قریب ہونے کی وجہ سے سمندری آلودگی میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ اس آلودگی سے سب سے زیادہ آبی حیات کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔
اس سفر میں سب سے خوبصورت نظارہ شام کا نظارہ تھا۔ سطح سمندر سے جو سورج ڈوبنے کے لمحات آنکھوں کیلئے فرحت کا باعث بنے ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان خوبصورت لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کیا تاکہ دوبارہ بھی اس قدرتی منظر کو دیکھ کر ٓآنکھوں کو تسکین دی جاسکے۔
پاکستان قدرتی خوبصورتی اور حسن سے مالامال ملک ہے چاہے وہ کوہ ہمالیہ کی بلند پہاڑی چوٹیاں ہوں یا میدانی سرسبز ہرے بھرے باغات۔ چاہے وہ تھر کا ریگستان ہو یا اس کے جنوب میں میلوں دور تک پھیلی ساحلی پٹی کا میدان۔ اگر پاکستان سیرو سیاحت کے فروغ کیلئے کوشش کرے تو اس سے ناصرف ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا بلکہ لوگوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ میں بھی مدد ملے گی اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پائے گا۔