رسولِ ؐرحمت کا دنیا پر احسان امن و راحت کا عظیم عالمی منشور
تحریر : رانا محمد شفیق خاں پسروری
دنیا بھر میں بنی نوع انسان کو امن و سکینت اور سکون و راحت سے ہم کنار کرنے کے لئے محسن اعظمؐ نے منشورِ اعظم عطا کیا تھا۔ اور انسانیت کا وہ عظیم منشور، انسانی حقوق و فرائض کا اولین و کامل ترین چارٹر حضور رسالت مآب، معلم بشریت، محسن انسانیتؐ نے حجۃ الوداع کے تاریخی موقع پر یوم عرفہ میں وادی نمرہ میں جہاں کم و بیش ڈیڑھ لاکھ نفوسِ قدسیہ ہمہ تن گوش تھے اور پھر یوم الحج الاکبر یعنی 10 ذی الحجہ کو جمرات کے قریب اور اوسط ایام تشریق یعنی 12 ذی الحجہ کو منیٰ میں خطبات ارشاد فرمائے۔
یوں تو صاحب جوامع الکلمﷺ کا ہر خطبہ ہی اہم ہے لیکن حجۃ الوداع میں آپؐ نے جو خطبات ارشاد فرمائے، خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لئے کہ یہ الوداع کہنے والے الصادق الامین اور ناصح امت صلی اللہ علیہ وسلم کی، امت کو الوداع کہتے وقت کی نصیحتیں ہیں کہ اپنے رب کی عبادت کرو، نماز پنجگانہ جو تم پر فرض ہے ادا کرو، ماہ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اور چار باتیں ہیں (ان سے دور رہو): اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، جس جان کو اللہ نے حرمت دی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو، زِنا نہ کرو اور چوری نہ کرو (البدایہ والنہایہ ۶/۸۹۱، بحوالہ مسند احمد)
اگر کوئی سیاہ فام ناک کٹا غلام بھی تم پر امیر مقرر کر دیا جائے اور وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ (صحیح مسلم)
لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے اللہ کی کتاب۔
اسی لئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس خطبہ کے متعلق فرمایا
’’اللہ کی قسم! یہ نبی کریمؐ کی اپنی امت کیلئے وصیت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری باب)
چنانچہ آپ نے کئی فقرات بار بار دہرائے اور فرمائے جیسے: اللھم ھل بلغت؟ اللھم ھل بلغت؟
اللہ کو گواہ بنا کر بتاؤ کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا؟ اسی اہمیت کے پیش نظر جناب رسول اللہؐ کی آواز غیر معمولی طور پر بلند تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی غیر معمولی توجہ کے ساتھ سن رہے تھے۔ چنانچہ سنن نسائی میں حضرت عبدالرحمان بن معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’یعنی رسول اللہؐ نے منیٰ میں ہم سے خطاب فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کانوں کو کھول دیا یہاں تک کہ ہم اپنے اپنے پڑاؤ میں بھی آپؐ کے ارشادات بخوبی سن رہے تھے۔‘‘ (یہی نہیں محدثین رحمہم اللہ کی الہامی کاوشوں کے نتیجہ میں ہم آج بھی یہ خطبات سن سکتے ہیں)
مزید پڑھئے : شہیدِ محرابِ نبوی۔۔! حضرت عمر فاروق ؓ کی سطوت و عظمت
آپؐ نے جہاں اپنے ان خطبات میں دین حنیف کے اصول و قواعد بیان فرمائے اور ملت ابراہیمی کا ایک ایک نقشہ اجاگر کیا وہیں شرک اور جاہلیت کی بنیادیں اکھاڑ دیں۔ اس لئے یہ حکمت بھرے خطبات ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہئیں تا کہ قلوب و اذھان نور ایمان سے جگمگاتے رہیں۔ آپؐ نے میدان عرفات میں عظیم خطبہ کا آغاز کرنے سے پہلے جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبداللہ البجلی کو حکم دیا کہ لوگوں کو خاموش ہو کر خطبہ سننے کا کہیں۔ آپ اس وقت اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھے۔ آپؐ نے بلند آواز میں فرمایا: آلا تسمعون؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟ (مسند امام احمد ۵/۱۵۲) پھر یوں گہر بار ہوئے
تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں، ہم اسی کی حمد کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں اور اس سے اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنے گناہوں اور خطاؤں پر نادم ہو کر اسی کے حضور رجوع کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفوس امارہ کی فتنہ انگیزیوں اور اپنے اعمال کے برے نتائج سے اسی کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ رشد و ہدایت سے نوازے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ اپنی توفیق و ہدایت سے محروم کر کے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ راست پر نہیں لا سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں اس امر کی کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلئے ساری تعریفیں، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا وتنہا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اسی نے تنہا تمام گروہوں کو شکست دی۔
لوگو! میری باتیں پوری توجہ سے سنو اس لئے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس سال کے بعد تم سے اس مقام پر ملاقات کر سکوں یا حج کر سکوں گا۔ لوگو! میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے یعنی اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت اور تلقین کرتا ہوں۔ لوگو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تا کہ باہم پہچان سکو، اس میں شک نہیں کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ معزز وہی ہے جس میں تقویٰ زیادہ ہے۔‘‘
(الحجرات: ۳۱)
اللهم صل على سيدنا محمد وعلى آل سيدنا محمد وبارك وسلم
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
اے نورِ خدا آکر آنکھوں میں سما جانا یا در پہ بلا لینا یا خواب میں آجانا
اے پردہ نشیں دل کے پردے میں رہا کرنا جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
میں قبر اندھیری میں گھبراں گا جب تنہا امداد میری کرنے آجانا میرے آقا
روشن میری تربت کو اے نورِ خدا کرنا جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
مجرم ہوں جہاں بھر کا محشر میں بھرم رکھنا رسوائے زمانہ ہوں دامن میں چھپا لینا
مقبول دعا میری اے نورِ خدا کرنا جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
چہرے سے ضیا پائی ان چاند ستاروں نے اس در سے شفا پائی دکھ درد کے ماروں نے
آتا ہے انہیں صابر ہر دکھ کی دوا کرنا جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خوب سمجھ لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں‘ اسی طرح کسی کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے، کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔۔۔؟؟ اے لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں آپس میں حرام کر دی گئی ہیں تا آنکہ تم اپنے رب کے حضور پیش ہو جاؤ۔ یہ حرمت اسی طرح کی ہے جیسے تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں تمہارا یہ دن محترم اور حرام ہے۔ (مسند احمد: ۴/۵۱۴)
مزید پڑھئے : برکتوں رحمتوں کی رات
آگاہ رہنا میں نے یہ بات تم تک پہنچا دی، اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا۔ جو تم میں سے یہاں موجود ہے وہ غیرحاضر افراد تک یہ بات پہنچا دے۔ تم پر ایک دوسرے کا احترام آج کے دن کے احترام کی مانند فرض ہے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مسلم کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مومن کون ہے؟ مومن وہ ہے اہل ایمان جس کی طرف سے اپنی جانوں کے بارے میں بے خوف و خطر رہیں۔
میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مہاجر کون ہے؟ مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ برائیاں ترک کر دے اور مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے لئے اپنے نفس سے جہاد کرے۔ (مجمع الزوائد: ۳/۲۷۲) مومن‘ مومن پر آج کے دن کی طرح محترم اور حرام ہے، اس کا گوشت اس پر حرام ہے کہ غائبانہ غیبت کر کے کھائے۔ اسکی آبرو اس پر حرام ہے کہ اسے زک پہنچائے۔ اس کا چہرہ اس پر حرام ہے کہ اس پر تھپڑ مارے، اسے تکلیف پہنچانا بھی اس پر حرام ہے اور اسے دھکا دینا جس سے وہ لڑکھڑا جائے، بھی حرام ہے۔ (مجمع الزوائد: ۳/۲۷۲)
تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ آگاہ رہنا! زمانہ جاہلیت کے تمام اعزازات، امتیازات اور خون یا مال جن کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے ان دو قدموں کے نیچے (یعنی کالعدم) ہیں، سوائے سدانہ (کعبہ کی دربانی) اور سقایہ (حاجیوں کیلئے آب رسانی) کے۔ پھر فرمایا اے قریش! ایسا نہ ہو کہ لوگ آخرت کیلئے اعمال لے کر آئیں اور تم اس طرح آؤ کہ دنیا کندھوں پر اٹھائی ہوئی ہو۔ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کسی کام نہ آ سکوں گا۔ آگاہ ہو جاؤ! زمانہ جاہلیت کی ہر بات میرے قدموں کے نیچے پامال اور موقوف ہے۔
زمانہ جاہلیت میں ہونے والے تمام خونوں کے مطالبات قصاص ساقط کر دئیے گئے ہیں اور سب سے پہلے میں عمار بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے خون کا مطالبہ ساقط کرتا ہوں جو بنو سعد میں دودھ پیتے تھے کہ بنوھذیل نے انہیں قتل کر دیا تھا۔
زمانہ جاہلیت کے سودی مطالبات کالعدم ہو چکے اور میں سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے سودی مطالبات کالعدم قرار دیتا ہوں۔ لوگو! مہینوں کا ادل بدل اور تقدیم تأخیر کفر کے طرز عمل میں اضافہ ہے اور اس طرح کافر لوگ اور زیادہ گمراہی میں پڑتے ہیں کہ ایک سال کے کسی مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ مہینوں کی گنتی پوری کردیں۔
آگاہ رہو! زمانہ گردش لے کر اسی حالت پر آگیا ہے جس پر تخلیق ارض و سما کے دن تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں مہینوں کی تعداد قطعی طور پر بارہ ہے۔ یہ تعداد اللہ کی کتاب میں ثابت ہے اور ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین متواتر یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور ایک اکیلا یعنی رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔